(It's better to create than destroy what's unnecessary)

Thursday, October 28, 2010

حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر 144

اسپین والوں نےبھی مسلمانوں کے زوالِ سلطنت کے بعد اسی طرح مسلمانوں کی نشانیاں مٹائی تھیں مگر انھوں نے اپنی حکومت کے زمانے میں ایسا کیا تھا اور ہمارے ہموطن بھائی محکوم ہونے کی حالت میں ایسے ارادے رکھتے ہیں ۔ لیکن ہم کو اطمینان رکھنا چاہئے کیونکہ جس تعلیم نے ہمارے ہندو نوجوانوں کو مسلمانوں سے تعصب اور نفرت کرنا سکھا یا ہے وہی آگے چل کر ان کو یہ سبق دے گی کہ جط تک ہندو مسلمان مل جل کر نہ رہیں گے اور ایک دوسے کے مصالح کو ملحوظ نہ رکھیں گے تب تک برٹش انڈیا میں عزت حاصل نہیں کر سکتے۔

حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر 139

انگریزی مدارس کی تعلیم میں جس سے زیادہ تر ہندو مستفید ہوتے تھے تاریخِ ہندوستان کی وہ کتابیں جو نہایت تعصب آمیز طریقہ پر لکھی گئیں تھیںاور جن میں مسلمانوں کی برائیاں اور ظالمانہ کارروائیاں دانستہ یا نا دانستہ نہایت تفصیل کے ساتھ درج کی گئیں تھیں ۔ اس تعلیم کا ضروری نتیجہ یہ تھا کہ ہندووں کے دل میں مسلمانوں کی طرف سے نفرت اور ناگواری کا تخم جم جائے اور وہ رفتہ رفتہ ایک نہایت گھنا اور عظیم الشان درخت ہو جائے۔

Monday, October 25, 2010

حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر 107

تحقیقِ لفظِ نصاریٰ

سر سید مرادآباد میں ہی تھے کہ ان کو معلوم ہوا کہ بعض اضلاع میں مسلمانوں کی بعض تحریریں ایامِ غدر کی ایسی پیش ہوئیں جن میں انگریزوں کو لفظ نصاریٰ سے تعبیر کیا تھا۔ حکام نے اس لفظ کو بھی بغاوت سمجھا اور ان کے لکھنے والوں کو وہ سزائیں دی گئیںجو ان کی قسمت میں لکھی تھیں۔

Saturday, October 23, 2010

حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر 93

سر رشتہ تعلیم جو چند سال سے جاری ہے وہ تربیت کے لئیے ناکافی ہی نہیں بلکہ خراب کرنے والا تربیتِ اہلِ ہند کا ہے اردو زبان جس کے وسیلہ سے اکثر جگہ تعلیم جاری ہے اس کی حالت ایسی نہیں ہے جس سے تعلیم ہونا ممکن ہو۔ کینکہ جس زبان میں ہم کسی قوم کی تعلیم کا ارادہ رکھتے ہیں اس زبان کی نسبت ہم کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس میں علمی کتابیں کافی موجود ہیں بھی یا نہیں؟ کینکہ اگر یہ نہ ہو تو تعلیم ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ زبان فی نفسہ اس قابل ہی یا نہیں کہ اس میں علمی کتابیں تصنیف ہو سکیں ؟ کینکہ پہلی بات کا تو علاج ہو سکتا ہے مگر دوسری بات لا علاج ہے ، تیسرے یہ کہ آیا وہ ایسی زبان ہے یا نہیں کہ اس میں علوم پڑھنے سے جدتِ طبع، حدتِ ذہن، سلامتِ فکر، ملکئہ عالی، قوتِ ناطقہ، پختگئیِ تقریر اور ترتیبِ دلائل کا سلیقہ پیدا ہو سکے ؟ ان تینوں باتوں میں سے اردو زبان میں کوئ بات نہیں ۔ پس گورنمنٹ پر واجب ہے کہ اس طریقہء تعلیم کو جو در حقیقت تربیت انسان کو خراب کرنے والا اور خود بخود لوگوں کے دلوں میں بد گمانی پیدا کرنے والا ہے۔ بل کل بدل دے اور اس زبان میں تربیت جاری کرے جس سے تربیت کا جو اصلی نتیجہ ہے وہ حاصل ہو"۔

میری صاف رائے ہے کہ اگر گورنمنٹ اپنی شرکت دیسی زبان میںتعلیم دینے سے بالکل اٹھا دےاور صرف انگریزی مدرسہ اور اسکول جاری رکھے تو بلا شبہ یہ بد گمانی جو رعایا کو گورنمنٹ کی طرف سے ہے جاتی رہے ۔ صاف صاف لوگ جان لیں کہ سرکار انگریزی زبان کو وسیلہ سے تربیت کرتی ہے اور انگریزی زبان بلا شبہ ایسی ہے کہ انسان کی ہر قسم کی علمی ترقی اس میں ہو سکتی ہے"۔

سر سید احمد خان

حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر86

سید احمد خاں کو سرکار انگریزی کی طرف سے ضلع بجنور کا نظم و نسق سپرد تھااور وہاں کے ہندو مسلمانوں کی خانہ جنگیاں یادگار غدر ہیں۔ اس عموم بے تمیزی میں خود سید احمد خاں کے ساتھ بھی لوگ نہایت درجہ کی گستاخی اور بے توقیری کے ساتھ پیش آئے اور قریب تھا کہ ہلاک کریں عودِ تسلط کے بعد اس ضلع کے تمام با شندوں کی جان سید احمد کی مٹھی میں تھی اگر ان کے سے اختیارات کسی دوسرے کو ہوتے تو بجنور کے حصہ میں قیامت آ گئی ہوتی۔ مگر یہ معاملہ فہم، منصف مزاج،نرم دل، نیک طینت آدمی اس وقت بھی فرق کرتا تھا بغاوت اور خانہ جنگیوں میں ، مخالفت اور جہالت میں ، حملہ اور حفاظت میں ۔ اور سید احمد خاں کی بدولت بجنور ہی ایک ضلع تھا جو عواقب اور تبعاتِ غدر سے محفوظ رہا"۔

نواب محسن الملک



حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر 81

انھی دنوں میں ایک شخص منیر خاں نامی مع جمیعت چار سو آدمی کے نگینے سے بجنور میں آیااور سر سید اور میر تراب علی، دپتی رحمت خاں کے قتل کے درپے ہوا ان کو بہ جبر و تحکم طلب کیا اور کہلا بھیجا کہ اگر حاضر نہ ہو گے تو بہتر نہ ہوگا۔ سر سید اور میر تراب ولی اس کے پاس گئے۔ منیر خاں نے سر سید سے مسئلہ جہاد کے بارے میں گفتگو کی۔ انھوں نے نہایت سنجیدگی سے اس کو سمجھا یا کہ شرع کے بموجب ہرگز جہاد نہیں ہے، اس نے ان کو تو رخصت کیا اور مولوی علیم اللہ رئیس کے پاس خود جا کر یہی مسئلہ پوچھا ۔ انھوں نے بڑی دلیری سے اس کے ساتھ گفتگو کی اور بہت سی دلیلوں سے اس کو قائل کیا کہ مزہب کی رو سے جہاد نہیں ہے ۔ اس روز مولوی علیم اللہ قتل ہوتے ہوتے بچے ۔ دوسرے دن منیر خاں وہاں سے دلّی چلا گیا اور وہاں جا کر لڑائی میں مارا گیا۔

حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر 58

سر سید کا مزکورہ بالا جلسوں میں شریک ہونا آخر کار رنگ لائے بغیر نہ رہا ۔ اگرچہ اس وقت تک دلی کے مسلمانوں میں قدیم سوسائٹی کی بہت سی خوبیاں باقی تھیں لیکن چونکہ ان کے اقبال کا خاتمہ ہو چکا تھا اس لئیے ان کی سوسائٹی میں ان خرابیوں کی آہستہ آہستہ بنیاد پڑتی جاتی تھی جن کو تنزل اور ادبار کا پیش خیمہ سمجھنا چاہئیے۔ طبیعتیں عموماْ عیش و نشاط اور راگ رنگ کی طرف مائل ہو جاتی تھیں ۔ بے فکر امیر زادے عیاشی اور لہو و لعب کی مثالیں قائم کرتے جاتے تھے اور خربوزوں کو دیکھ کر خربوزے رنگ پکڑتے جاتے تھے ۔اگرچہ سر سید سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں متاہل ہو گئے تھے پھر بھی وہ اس متعدی مرض کے اثر سے اپنے تئیں نہ بچا سکے ۔ لیکن جیسا کہ معتبر زریعوں سے معلوم ہوا ہے ، باوجود غایت دلبستگی کے جو جنون سے کسی طرح کم نہ تھے، سر سید نے جس حیرت انگیز طریقہ سے اپنے تئیں اس دلدل سے نکالا وہ درحقیقت ان کی زندگی کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس کو ان کی اخلاقی طاقت کا سب سے پہلا کرشمہ سمجھنا چاہئیے۔ گویا یہ شعر ان کے حسبِ حال تھا:

ھزار دوام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں

جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے

حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر 54

سر سید کہتے تھے کہ "اس زمانے میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہوگی۔ تقریباْ انھیں دنوں میں راجہ رام موہن رائے جو برہمو سماج کے بانی تھے ۔ ان کو اکبر شاہ نے کلکتہ سے بلایا تھا تاکہ اضافئہ پنشن بادشاہی کے لئے ان کو لندن بھیجا جائے چنانچہ وہ بادشاہ کی طرف سے لندن بھیجے گئے اور ً1831 میں وہاں پھنچے"۔ سر سید نے لندن جانے سے پہلے ان کو متعدد دربار بادشاہی میں دیکھا تھا۔

حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر 49

سر سید کو مسماۃ مان بی بی نے جو ایک قدیم خیر خواہ ان کے گھرانے کی تھی پالا تھا ۔ اس لئے ان کو مان بی بی سے نہایت محبت تھی ۔ وہ پانچ برس کے تھے جب مان بی بی کا انتقال ہوا۔ ان کا بیان ہے کہ " مجھے خوب یاد ہے مان بی بی مرنے سے پانچ گھنٹے پہلے فالسہ کا شربت مجھکو پلا رہی تھی۔ جب وہ مر گئی تو مجھے اس کے مرنے کا نہایت رنج ہئوا ۔ میری والدہ نے مجھے سمجھایا کہ وہ خدا کے پاس گئی ہے۔ بہت اچھے مکان میں رہتی ہے، بہت سے نوکر چاکر اس کی خدمت کرتے ہیں اور اس کی بہت آرام سے گزرتی ہے، تم کچھ رنج مت کرو، مجھ ان کو کہنے سے پورا یقین تھا کہ فی الواقع ایسا ہی ہے۔ مدت ہر جمعرات کو اس کی فاتحہ خوانی ہوا کرتی تھی اور کسی محتاج کو کھانا دیا جاتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ سب کھانا مان بی بی کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اس نے مرتے وقت کہا تھا کہ میرا تمام زیور سید کا ہے ۔ مگر میری والدہ اس کو خیرات میں دینا چاہتی تھیں۔ ایک دن انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر تم کہو تو یہ گہنا مان بی بی کے پاس بھیج دوں ۔ میں نے کہا ہاں بھیج دو۔ والدہ نے وہ سب گہنا مختلف طرح سے خیرات میں دے دیا"۔

حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر 48

وہ اپنے خاندان کے اکثر بچوں کی نسبت زیادہ قوی اور توانا اور ہاتھ پانو سے تندرست پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنی ماں کی زبانی بیان کرتے تھے کہ جب ان کے نانا دوسری بار کلکتہ سے دلی میں آئے اور ان کو پہلے ہی بار دیکھا تو یہ کہا کہ " یہ تو ہمارے گھر میں جاٹ پیدا ہوا ہے"۔

Friday, October 22, 2010

Constructing Pakistan - Closing

Pakistan is a nation of over one hundred and sixty million people, and it has, like so many other postcolonial nations, struggled to produce, articulate, and popularise its normative structure. Due to its strategic location, its recent problematic role as a regional US ally in the war against terror, and its national potential as a leading Muslim nuclear power, Pakistan is one of the most important Mulsim nation-states of the twenty-first century. Unfortunately, since the terrorist attacks of 2001, Pakistan has been mostly represented a problem both in the media as well as in the scholarly works produced in the United States. Thus, I hope that my attempt at articulating the formative national history of Pakistan will facilitate a more engaged public debate and academic scholarship on the past, present, and the future of Pakistan.

Constructing Pakistan - pg. 137

This is how the narrative of Indian Muslim nationhood finds different expressions. While the early exponents of the Muslim cause desperately needed to create a space for the Muslims within the hegemonic project of the empire, during the terminal stages of the freedom struggle, one important strand of national struggle is focused primarily on cleansing the Muslim consciousness of the residual effects of the hegemonic negotiation of the Western system. Both Iqbal and Mawdudi represent the struggles of two such reformers in retrieving and articulating a Muslim identity separate from the Hindus but also in difference to the in identity-forming imperatives of the British hegemonic project.
Iqbal and Mawdudi are both aware of the pitfalls of purely Western secular nationalism and are skeptical about it. For them Islam must form the basis of everyday life in an Islamic state and must not be reduced to the affair of the individual. It is this public nature of Islam as a way of life that forces the Muslim scholars of this particular path, for there were dissenting views, to make it imperative for the Muslims to seek a separate, autonomous nation-state. Hence, while Iqbal articulates a grand vision of the nation, Mawdudi, highly influenced by Iqbal but also the more conservative of the two, illustrates the tactical details of the Muslim nationalistic vision.

Constructing Pakistan - pg. 132

Mawdudi's sundering of the Muslim identity in two proposes a politics different from the politics of Unionist Nationalism, for the Muslims can only be successful if both aspects of their political identity are accommodated. If the Muslims have to alter or abandon their Muslim identity in order to forge a nationalistic alliance, then that, according to Mawdudi, is absolutely impossible. Mawdudi then goes on to challenge the Hinduized Western concept of nationhood:

Those who want us to follow the path of nationhood only as Hindustanis follow the Western concept of nationhood, which has the Hindu view of humanity deeply embedded in it. They aim to eliminate the national differences caused by religious and traditional differences and replace them by one nation united under the mixture of Hinduism and communism ... We can only follow this path if we sacrifice our second condition of nationality, our Muslimhood.

Constructing Pakistan - pg. 129

In his second speech, Iqbal is even more confident of his vision and completely aware of the prevailing charged political climate on the question of Muslim nationhood. He begins by putting forward his own idea of nationhood as opposed to the Western concept:

Politics have their roots in the spiritual life of man. It is my belief that Islam is not a matter of private opinion. It is a society, or if you like, a civic church. It is because present-day political ideals [...] may affect its original structure and character that I find myself interested in politics. I am opposed to nationalism as it is understood in Europe [...] I am opposed to it because I see in it the germs of atheistic materialism, which I look upon as the greatest danger to modern humanity. Patriotism is a perfectly natural virtue and has a place in moral life of man. Yet that which really matters is a man's faith, his culture, his historical tradition. These are the things which, in my eyes, are worth living and dying for, and not the piece of earth with which the spirit of man happens to be temporarily associated.

Constructing Pakistan - pg. 120

Overall, Iqbal's idea of Muslim identity is trans-historical and trans-national; he sees the Western concept of the nation-state as a divisive force against the Islamic concept of a larger Muslim ummah

Constructing Pakistan - pg. 118

According to Ahmad Mian Mukhtar: 'Iqbal had studied Islamic Sufism deeply including the original writings of all great Sufis. But he had noticed certain un-Islamic practices in Sufisn and was opposed to these unIslamic influences':

This Neo-Platonism is an altered version of Plato that one of his followers (Plotinus) presented as a religion. In Muslims this was spread through Christian translations and became a part of Islam. In myopinion this is strictly un-Islamic and has no relationship with the Qura'nic philosophy. The edifice of Sufisn is based on this Greek absurdity.

Book Cycle

  1. Twilight in Delhi
  2. Aab-e-Hayat
  3. Hayat-e-Javed
  4. Early Xian Writers
  5. Kleist
  6. Ingeborg Bachmann (2010, rest of,)
  7. Muslim Women in India
  8. Plato the two books: Forum, Republic,
  9. Genesis : The Bible

Tuesday, October 19, 2010

Constructing Pakistan - pg. 98

There are some obvious differences in the retrieval strategies of Hali and Naumani. While Hali, steeped in the loyalist discourse of his times, focused mainly on the social transformative history of Islam and its mastery of knowledge, Naumani's focus is more on the illustrious martial traditions of Islam. His heroes of the past are Muslim warriors who sacked empires, and changed the world, and as is evident from these lines, 'Received the throne and crown of Kisra/ and collected revenues from the Tartars.

Constructing Pakistan - pg. 96

With Shibli Nomani, then, Muslim literature is geared towards the Islamic past and its pan-Islamic present to define the particularities of the Muslims of India. In his popular works he insists upon the need to retrieve the stories of past Muslim heroes. He was, therefore, not necessarily opposed to Western education and viewed Sayyid Ahmad Khan's reformatory efforts in a positive light; but at the same time he did not want the Muslim youth to lose touch with their history. He stresses upon the importance of this aspect in one of his essays:


Someone has aptly pointed out that our misfortune is not only that we have been conquered by the Europeans; but they have also succeeded in conquering our dead. When we speak of courage, strength, honour and knowledge, it is the European heroes we talk of ... not our own. The reason for this does not lie in the fact that we no longer revere our own heroes, but because modern education does not provide us with an opportunity to learn the accomplishment of our ancestors.

Constructing Pakistan - pg. 92

The book Ibn-ul-Waqt with these lines. The task of the Muslim loyalist reformer is further complicated by the traditional point of view. The reformer, in order to be effective must also be a pious Muslim. The novel, thus, foregrounds the importance of double negotiation: the Muslim elite will only be able to lead the Muslim masses if they do not lose their sense of self and Muslim identity in the process of dealing with the British. It was this important aspect of the native Muslim identity that forced the British to abandon their universalist project and change their policies specific to the perceptions of the natives. Respecting local religions and maintaining Muslim family law, thus, were a means of creating a hegemonic relationship.

Monday, October 18, 2010

The War Of The End Of The World - pg. 10

Something out of the ordinary occurred then in the boy's life; shortly thereafter, as a result of the changes that took place in him because of the sermons of the Lazarists, people began to call him the Little Blessed One. He would come out of the sessions where they preached with his eyes no longer fixed on hi surroundings and as though purified of dross. One-Eye spread the word about that he often found him kneeling in the darkness at night, weeping for Christ's sufferings, so caught up in them that he was able to bring him back to this world only by cradling him in his arms and rocking him. On other nights he heard him talking in his sleep, in agitation, of Judas's betrayal, of Mary Magdalene's repentance, of the crown of thorns, and one night he heard him make a vow of perpetual chastity, like St. Francis de Sales at the age of eight.

The War Of The End OF The World - pg. 7

The man in black nods. He has a little beard as red as his hair, and piercing bright blue eyes; his broad mouth is firmly set, and his
flaring nostrils seem to be breathing in more air than his body requires.
"Provided it doesn't cost more than two milreis," he murmurs in broken
Portugese. "That's my entire capital."

Sunday, October 17, 2010

حیاتِ جاوید - آغاز

پیش لفظ

ابتدا میں لفظ تھا ۔ اور لفظ ہی خدا ہے"



پہلے جمادات تھے ۔ ان میں نمو پیدا ہوئی تو نباتات آئے۔ نباتات میں جبلّت پیدا ہوئی تو حیوانات پیدا ہوئے۔ ان میں شعور پیدا ہوا تو بنی نوع انسان کا وجود ہوا ۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ کائنات میں جو سب سے اچھا ہے اس سے انسان کی تخلیق ہوئی۔

ابن الو قت - اختتام

حجۃالاسلام: میں امید کرتا ہوں کہ مزہب کے متعلق جو کچھ میں نے اب تک تم سے کہا پہلے حصے یعنی نفس اسلام کی نسبت تمہاری تشفی کر سکتا ہے بشرطیکہ تم کو تشفی درکار ہو اور جب اسلام کی اصلی اور حقیقی عمدگی تمہارے زہن میں اچھی طرح بیٹھ جائے گی ، جس کی شناخت یہ ہے کہ اعمال اضطراراْ سر زد ہونے لگیں تو میری یہ بات لکھ کر رکھو کہ انگریزی وضع خود تم ہی کو بہ تقاضائے مزہب وبال معلوم ہونے لگے گی۔ رہا دوسرا حصہ یعنی اسلام کے فرقوں میں کسی فرقہ خاص کی تعین اس کو کسی دوسرے وقت پر رکھو۔

ابن الو قت - صفحہ نمبر 218

حجۃالاسلام: اگر ہم ایک گھر کی رفارم کرنا چاہیں تو اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اس کو جڑ بنیاد سے کھود کر پھینک دیں اور از سر نو دوسرا مکان بنا کر کھڑا کریں۔ اسی طرح مسلمانوں کی رفارم کو تو اسی وقت رفارم کہا جائے گا کہ مسلمان مسلمان رہیں، یعنی باپ دادا کے مزہب کے، وضع کے پابند ہیں ۔ دور سے الگ پہچان پڑیں کہ مسلمان ہیں اور پھر ان کے دلوں میں زمانہءحال کے مطابق ترقی کی گدگدی پیدا کی جائے۔

Poetry and Religion

Shigekuni posted this unbelievable poem by Les Murray on his blog:


Religions are poems. They concert

our daylight and dreaming mind, our
emotions, instinct, breath and native gesture

into the only whole thinking: poetry.
Nothing’s said till it’s dreamed out in words
and nothing’s true that figures in words only.

A poem, compared with an arrayed religion,
may be like a soldier’s one short marriage night
to die and live by. But that is a small religion.

Full religion is the large poem in loving repetition;
like any poem, it must be inexhaustible and complete
with turns where we ask Now why did the poet do that?

You can’t pray a lie, said Huckleberry Finn;
you can’t poe one either. It is the same mirror:
mobile, glancing, we call it poetry,

fixed centrally, we call it a religion,
and God is the poetry caught in any religion,
caught, not imprisoned. Caught as in a mirror

that he attracted, being in the world as poetry
is in the poem, a law against its closure.
There’ll always be religion around while there is poetry

or a lack of it. Both are given, and intermittent,
as the action of those birds – crested pigeon, rosella parrot -
who fly with wings shut, then beating, and again shut.

Friday, October 15, 2010

ابن الو قت - صفحہ نمبر 196

حجۃالاسلام: ذرا تو سوچ کر کہو، خدا بھی ہے یا تم ہی تم ہو؟

ابن الو قت - صفحہ نمبر 183

حجۃالاسلام: خیر ،آپ پوچھتے ہیں عرض کرتا ہوں کہ میرے نزدیک انگریزی تعلیم کا یہ نتیجہ تو ایک نہ ایک دن ضرور ہونا ہے کہ گورنمنٹ کا گنگا جمنی رنگ کہ کسی قدر انگریزی ہے اور کسی قدر ایشیائی اور جس کے لئے یوریشین کا لفظ نہایت مناسب ہے اور ہم اپنی زبان میں ایسا لفظ بنانا چاہیں تو مغلئی اور انگریزی کو ملا کر 'مغریزی' کہہ سکتے ہیں، غرض گورنمنٹ کا یہ دوغلا پن تو باقی رہتا نظر نہیں آتا۔ ہندوستان اور ولایت میں جو پرلے درجے کی مغایرت اور اجنبیت تھی ، یوماْ فیوماْ کم ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کے چند در چند اسباب ہیں ؛ انگریزی تعلیم، انگریزی اور دیسی اخباروں کی کثرت ، ڈاک، ریل، تار، سفر ولایت کی سہولت، ہندوستانیوں اور انگریزوں دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے جاننے پہچاننے کا شوق۔ غرض جس قدر ہندوستانیوں کی آنکھیں کھلتی چلی جاتی ہیں اسی قدر ان کے حوصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ انجامِ کار ہندوستانی ضرور خواہش کریں گے کہ ہوم گورنمنٹ اور انڈین گورنمنٹ دونوں کا ایک رنگ ہو اور ولایت میں جو حقوق رعایائے سلطانی ہونے کی حیثیت سے آپ لوگوں کے تسلیم کئیے گئے ہیں اور جو اختیار آپ لوگوں کو دیئے گئے ہیں ، وہی حقوق اس ملک میں ہندوستانیوں کے تسلیم کئیے جائیں اور وہی اختیار ان کو ملیں۔

ابن الو قت - صفحہ نمبر 177

مسلمان سوائے ایک خدا کے جس کو کوئی انسان دیکھ نہیں سکتا ، موجوداتِ عالم میں اس سے ارضی ہوں یا سماوی، کسی چیز کی عبادت یعنی اعلیٰ درجے کی تعظیم نہیں کرتا۔ حجۃالاسلام صاحب کے بیان کے مطابق اسلام خودداری اور بے تکلّفی اور سادگی اور توکّل اور صبر کا مجموعہ ہے۔ لیکن ہندو بندر اور سانپ اور گائے اور پیپل اور تلسی اور آگ اور پانی اور پتّھر اور چاند اور سورج ہر چیز کے آگے ماتھا ٹیکنے کو موجود ہے ، جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ آدمی سب میں ادنیٰ درجے کا مخلوق ہے اور اس کو دنیا میں ادنیٰ بن کر رہنا چاہیئے۔ حجۃالاسلام صاحب اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسلمان کار فرمائ اور حکومت کے لیئے بنایا گیا ہے ، جس طرح ہندو کارکنی اور اطاعت کے لیئے۔

ابن الو قت - صفحہ نمبر 172

ساس: اے ہے غدر کے دنوں میں کچھ ایسی گھڑی کا پیرا اس موئے فرنگی کا آیا تھا کہ بچے کی مت پھیر دی ۔ ہم سے تو ایسا چھپا یا ایسا چھپایا کہ دن کو گورے شہر میں گھسے اور رات کو ہم نے جانا کہ سارے غدر ہمارے گھر میں فرنگی چھپا رہا ۔ جس وقت فرنگی کو لائے تھے اگر ذرا بھی مجھ تو معلوم ہوتا تو میں اس کو کھڑا پانی نہ پینے دوں۔ خدا جانے کمبخت کہاں سے ہمارے گھر آمرا تھا۔ نہ آتا نہ بچہ ہاتھ سے جاتا۔ آخر میرا صبر پڑا ہی پڑا۔ کسی کی آہ کا لینا اچھا نہیں ہوتا۔ خدا نے اس کے پیچھے ایسا روگ لگایا کہ سارے سارے دن اٹونٹی کھٹوانٹی لئے پڑا رہتا تھا، آخر کو جاتے ہی بن پڑی۔ کالا منہ، خدا کرے پھر آنا نصیب نہ ہو۔

The War Of The End Of The World - Opening

The man was tall and so thin he seemed to be always in profile. He was dark-skinned and rawboned, and his eyes burned with perpetual fire. He wore shepherd's sandals and the dark purple tunic draped over his body called to mind the cassocks of those missionaries who every so often visited the villages of the backlands, baptizing hordes of children and marrying men and women who were cohabiting.

To EUCLIDES DA CUNHA
in the other world;
and, in this world,
to NELDA PINON

First published in the United States of America
by Farrar, Straus and Giroux, Inc. 1984
Published in Penguin Books 1997

Originally published in Spanish as La Guerra del fin del mundo
by Editorial Seix Barral, S.A., Spain

Printed in the United States of America
Set in Aldus
Designed by Cynthia Krupat

ابن الو قت - صفحہ نمبر 162

حجۃالاسلام: وقت سے پہلے کوئ مر نہیں سکتا، پھر کیوں گھبرائیں اور وعدہ پورا ہوئے پیچھے کوئ رک نہیں سکتا تو کس برتے پر اترائیں؟ اِذاجاء اجلھم لا یستاخرون سا عتہ ولا یستقدمون۔

ابن الو قت - صفحہ نمبر 160

ابن الو قت: عموماْ ہندوستانیوں کا اور خصوصاْ دیہاتیوں کا اور غرباء کا طرزِ تمدن اس طرح واقع ہوا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین پر ہر جگہ ہیضے کا بیج موجود ہے، گرمی پڑی اور بیج پھوٹا۔

ابن الو قت - صفحہ نمبر 156

مہینہ اور تاریخ تو یاد نہیں ، پر اتنی بات کا خیال ہے کہ پانی برسنے میں دیر ہوئ، مسلمانوں نے صلاح کی کہ جمعہ کے دن عیدگاہ میں پہلے نمازِ استسقاء پڑھیں اور وہیں جمعے کی نماز ہو۔ جمعرات کو عید گاہ میں صفائ ہوئ ، شامیانے تنے، جا نمازیں بچھیں ۔ یکایک رات کو اچھا زور کا پانی برسا ، وہ سارا منصوبہ ملتوی رہا اور بدستور جمعے کی نماز جامع مسجد میں ہوئ۔ نماز کے بعد لوگ حجۃالاسلام سے ملے اور پوچھا آپ کب تشریف لا ئے؟

حجۃالاسلام: “کل بین العصر والمغرب" یہ سن کر سب نے کہا : “آہا! ہی آپ ہی کے قدموں کی برکت ہے کہ خدا نے اپنے بندوں پر رحم فرمایا۔"

ابن الوقت - صفحہ نمبر153

وہ کسی کا مقولہ بہت درست ہے "عندالمصا ئب تز ھل الا حقلا" ۔ اب کسی کو اس کا مطلق خیال نہ تھا کہ ابن الوقت نے ترکِ اسلام کیا ہے یا وہ انگیزوں کے ساتھ کھاتا پیتا ہے یا قوم اور برادری اور گھر کو چھوڑ کر انگریزوں میں جا ملا ہے یا اس نے بزرگوں کے نام کا بٹا لگایا ہے یا اس نے خاندان کی آبرو کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ سارے رنج و شکوے بھول بسر کر سب کو اسی کی پڑی تھی کہ کسی طرح ابن الوقت کو اس بلا سے نجات ہو۔ اس کی پھوپھی تو اس طرح بین کر کے روتی تھیں جیسے کوئ مردے کو روتا ہے مگر ملا کی دوڑ مسجد، سب نے مل کر منتوں اور نیازوں اور چلوں اور عملوں اور دعاوں کی بھرمار کردی اور ختم خواجگاں اور "لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین" اور "امن یجیب المظطر انا دعاہ و یکشف اسوء" اور "فلم تقتلوھم و لکن اللہ قتلھم و ماریت اذرعیت و لکن اللہ رمی" اور " اللھم انا نجعلک فی نحورھم و نعوذ و بک من شرورھم " حزب البحر اور دلائل الخیرات، اور یاسین، اور صلوۃ الحاجۃ، اور یاسین، اور صلوۃ الحاجۃ اور اعمال حصر السان کے حربے صاحب کلکٹر پر چلنے شروع ہوئے۔

Thursday, October 14, 2010

A Party For Boris - Closing

The Oldest Cripple
Boris
Cripple shakes Boris several times
All look at Boris
Johanna suddenly
He's dead
screaming
He's dead
to The Good Woman
He's dead
Boris is dead
exeunt All with the exception of The Good Woman, either wheeling themselves in their wheelchairs or being wheeled in silence by the attendants and waiters and backing out of the room. Hardly is The Good Woman alone with Boris's corpse when she bursts into horrible peals of laughter.

THE END

A Party For Boris

The Oldest Cripple to The Good Woman
We keep asking ourselves
what form of suicide
would be most bearable for us
Cripple
Always with what
and how to do it
Cripple
with our bed sheets
with our pocket knives
Cripple
with the kitchen knives
Cripple
or jump out of the window

A Party For Boris

The Great Woman
We have gone among the apes
The Queen went about among the apes
accompanied by a pig
I am tired
Wheel me back to where I was

A Party For Boris -

Then you asked me whether my husband
had said anything before he died
Your brutal frankness
In your morbid way
you wanted to find out details
My husband was killed instantly
I was not killed
But my husband was killed instantly
my legs were gone

A Party For Boris

No one has time for letters
For ideas
it is true that people have no ideas
because they have no time
for ideas
and they have no time
because they have no ideas
nobody likes to live like a specter
I have the most time
and I have no time at all
that is my misfortune

Tuesday, October 12, 2010

A Party For Boris - Opening

First Prologue

Empty room, high windows and doors
The Good Woman right
Johanna enters from left with a table and places it by The Good Woman
The Good Woman
It's cold
Johanna moves the table still closer to The Good Woman and places herself behind her
The Good Woman
Heavens it's cold
Bring me the blanket


THOMAS BERNHARD (1931-89) was a playwright, poet, and novelist whose prestigious literary prizes include the Austrian State Prize, the Buchner Prize, the Bremen Prize, and Le Priz Seguier. His novels Woodcutters, Concrete, Gargoyles, and The Lime Works are also available in English translation from the University of Chicago Press. KENNETH NORTHCOTT is professor emeritus in the Department of Germanic Languages and Literatures at the University of Chicago. PETER K. JANSEN is associate professor of German at the University of Chicago.

The three plays in this volume were originally published in three separate volumes as Ein Fest Fur Boris(1968), Ritter, Dene, Voss(1984), and Der Theatermacher (1984) by Suhrkamp Verlag, Frankfurt am Main.


The University of Chicago Press, Chicago 60637
1990 by The University of Chicago
All rights reserved. Published 1990
Printed in the United States of America



The paper used in this publication meets the minimum requirements of the American National Standard for Information Sciences -- Permanence of Paper for Printed Library Materials, ANSI Z39.48--1984

ابن الو قت - صفحہ نمبر 148

ادھر عملوں نے مثلوں کی خوب روئ دھنکی۔

ابن الو قت - صفحہ نمبر 145

صاحب کلکٹر: آپ کیوں سوکھے پتّوں اور کانٹوں کو یاد کرتے ہیں، جب کہ باغ کی ساری ہی بہار آپ ہی کے حصے میں تھی۔

India Wins Freedom - pg. 219

Later that day Gandhiji met Lord Mountbatten. He saw him again the next day and still again on 2 April. Sardar Patel came to him soon after he returned from his first meeting with Lord Mountbatten and was closeted with him for over two hours. What happened during this meeting I do not know. But when I met Gandhiji again, I receive the greatest shock of my life, for I found that he, too, had changed. He was still not openly in favor of partition but he no longer spoke so vehemently against it. What surprised and shocked me even more was that he began to repeat the arguments which Sardar Patel had already used. For over two hours I pleaded with him but could make no impression on him.

Destroyer: If you can't see my mirrors

If you can't see my mirrors
I see you coming around, yeah
You're coming around

If you can't see my mirrors
I see you coming around, yeah
You're coming around now

Pissed-up Sunday morning
We'll miss you in the show
Pissed-up Sunday morning
We'll miss you when you go
Go gently through the floor
A dismal and meaningless sigh

Pissed-up Sunday morning
We'll miss you when you go
Pissed-up Sunday morning
I'd kiss you, but you know
It'd be gently through the door
A dismal and meaningless sigh

Home from your eleventh tour
Honorable discharge aboard the HMS Pinafore
Oh what fun, oh what more

If you can't see my mirrors
If you can't see my mirrors
If you can't see my mirrors
If you can't see my mirrors

India Wins Freedom - pg. 216

They (Moslems) would have complete internal autonomy in provinces in which they were in a majority. Even in the Centre they would have more than adequate representation. So long as there were communal jealousies and doubts, their position would be adequately safeguarded. I was also convinced that if the Constitution for free India was framed on this basis and worked honestly for some time, communal doubts and misgivings would soon disappear. The real problems of the country were economic, not communal. The differences related to classes, not to communities. Once the country became free, Hindus, Moslems, and Sikhs would all realize the real nature of the problems that faced them and communal differences would be resolved.

India Wins Freedom - pg. 215

As soon as Sardar Patel had been convinced, Lord Mountbatten turned his attention to Jawaharlal. Jawaharlal was not at first at all willing and reacted violently against the very idea of partition, but Lord Mountbatten persisted till step by step Jawaharlal's opposition was worn down. Within a month of Lord Mountbatten's arrival in India, Jawaharlal, the firm opponent of partition, had become, if not a supporter, at least acquiescent towards the idea.
I have often wondered how Jawaharlal was won over by Lord Mountbatten. Jawaharlal is a man of principle, but he is also impulsive and amenable to personal influence. The arguments of Sardar Patel must have had some effect, but could not have been decisive. Jawaharlal was also greatly impressed by Lord Mountbatten, but perhaps even greater was the influence of Lady Mountbatten. She is not only extremely intelligent, but had a most attractive and friendly temperament. She admired her husband greatly and in many cases tried to interpret his thought to those who would not at first agree with him.

India Wins Freedom - pg. 214

It must be placed on record that the man in India who first fell for Lord Mountbatten's idea was Sardar Patel. Till perhaps the very end Pakistan was for Jinnah a bargaining counter, but, in fighting for Pakistan, he had overreached himself. The situation within the Executive Council had so annoyed and irritated Sardar Patel that he now became a believer in partition. The Sardar's had been the responsibility for giving Finance to the Moslem League. He therefore resented his helplessness before Liaqat Ali more than anybody else. When Lord Mountbatten suggested that partition might offer a solution for the present difficulty, he found ready acceptance of the idea in Sardar Patel's mind.

India Wins Freedom - pg. 211

The day before he left, Lord Wavell presided over his last Cabinet meeting. After the business was over, he made a brief statement which made a deep impression on me. Lord Wavell said, "I became Viceroy at a very difficult and critical time. I have tried to discharge my responsibility to the best of my ability. A situation, however, developed which made me resign. History will judge whether I acted rightly in resigning on this issue. My appeal to you would, however, be that you should take no hasty decision. I am grateful to all of you for the cooperation I have received from you."
After this speech, Lord Wavell collected his papers quickly and walked away without giving any of us an opportunity to say anything. The next day he left Delhi.

India Wins Freedom - pg. 198

In the latter half of October, Jawaharlal took a step which was unnecessary and which I opposed. His nature is, however, such that he often acts on impulse. As a rule he is open to persuasion, but sometimes he makes up his mind without taking all the facts into consideration. Once he has done so, he tends to go ahead regardless of what the consequences may be.

India Wins Freedom - pg. 194

Besides, the choice of his nominee caused both amusement and anger. When Mr. Suharwardy had formed a Moslem League Ministry in Bengal, the only non-Moslem included in his Ministry was Mr. Jogendra Nath Mandal. He was then almost unknown in Bengal and had no position whatever in all-India politics. Since he was a nominee of the Moslem League and had to be given a portfolio, he was appointed Law Member. Most of the secretaries to the Government of India were British. Mr. Mandal also had a British secretary who complained almost daily that it was difficult to work with a member like Mr. Mandal.

India Wins Freedom - pg. 187

Jawaharlal is one of my dearest friends and his contribution to India's national life is second to none. He has worked and suffered for Indian freedom and, since the attainment of independence, he has become the symbol of our national unity and progress. I have nevertheless to say with regret that he is at times apt to be carried away by his feelings. Not only so, but sometimes he is so impressed by theoretical considerations that he is apt to underestimate the realities of a situation.

India Wins Freedom - pg. 187

However, with great difficulty I got to Dum Dum just a few minutes before the plane was due to leave. I found there a large military contingent waiting in trucks. When I asked why they were not helping to restore order, they replied that their orders were to stand ready but not to take any action. Throughout Calcutta, the military and the police were standing by but remained inactive while innocent men and women were being killed.



The Calcutta airport situated near the ancient munitions factory where Dum Dum bullets were first produced.

India Wins Freedom - pg. 186

The 16th of August was a black day in the history of India. Unprecedented mob violence plunged the great city of Calcutta into an orgy of bloodshed, murder and terror. Hundreds of lives were lost. Thousands were injured and property worth crores of rupees was destroyed. Processions were taken out by the League, which began to loot and commit acts of arson. Soon the whole city was in the grip of goondas of both communities.

India Wins Freedom - pg. 185

On the other hand I noticed in Calcutta that a strange situation was developing. In the past, political parties had observed special days by organizing hartals, taking out processions and holding meetings. The League's "Direct Action Day" seemed to be of a different type. In Calcutta, I found a general feeling that, on 16 August, the Moslem League would attack Congressmen and loot Congress property. Further panic was created when the Bengal Government decided to declare 16 August a public holiday.

India Wins Freedom - pg. 168

In such context, the demand for Pakistan loses all force. As a Muslim, I for one am not prepared for a moment to give up my right to treat the whole of India as my domain and to share in the shaping of its political and economic life. To me it seems a sure sign of cowardice to give up what is my patrimony and content myself with a mere fragment of it.

-- statement 15 April 1946

India Wins Freedom - pg. 166

Sardar Patel asked me whether the Central Government would be restricted to three subjects alone. He said that there were certain subjects like currency and finance which must from the nature of the case belong to the Central sphere. He held that trade and industry could be developed only on an all-India basis and the same thing applied to commercial policy.

India Wins Freedom - pg. 164

I came to the conclusion that the Constitution of India must, from the nature of the case, be federal. Further, it must be so framed as to ensure autonomy to the provinces in as many subjects as possible. We had to reconcile the claims of provincial autonomy with national unity. This could be done by finding a satisfactory formular for the distribution of powers and functions between the central and the provincial governments. Some powers and functions would be essentially central, others essentially provincial and some which could be either would be provincially, or centrally exercised by consent. The first step was to devise a formula by which a minimum number of subjects should be declared as essentially the responsibility of the Central Government.

India Wins Freedom - pg. 131

Then came the third phase in the League's program during World War II. Congress had gained immensely in prestige and strength. It was now clear that the British Government would have to recognize Indian freedom. Mr. Jinnah had now become the leader of the Moslem League and felt that he must take advantage of every difference between the Congress and the Government. Whenever there were discussions between the Congress and the Government for the transfer of power, Mr. Jinnah would begin by remaining silent. If the negotiations failed, he issued a milk-and-water settlement, there was no need for the Moslem League to express any opinion on the British offer. This is what he did during the August offer in 1940 and the Cripps proposals of 1942. The Simla Conference presented him with a situation that he had never faced before.

India Wins Freedom - pg. 109

I think Gandhiji's approach to Mr. Jinnah on this occasion was a great political blunder. It gave a new and added importance to Mr. Jinnah which he later exploited to the full. Gandhiji had in dact adopted a peculiar attitude to Jinnah from the very beginning. Mr. Jinnah had lost much of his political importance after he left the Congress in the twenties. It was largely due to Gandhiji's acts of commission and omission that Mr. Jinnah regained his importance in Indian political life. In fact, it is doubtful if Mr. Jinnah could ever have achieved supremacy but for Gandhiji's attitude. Large sections of India Moslems were doubtful about Mr. Jinnah and his policy, but, when they found that Gandhiji was continually running after him and entreating him, many of them developed a new respect for Mr. Jinnah. They also thought that he was perhaps the best man for getting advantageous terms in the communal settlement.

India Wins Freedom - pg. 105

The quadrangle was quite bare when we came. Jawaharlal proposed that we should prepare a flower garden as this would keep us occupied and also beautify the place. We welcomed the idea and asked the superintendent to write to Poona for seeds. We then prepared the ground for flower beds. Jawaharlal took the leading role in this. We planted some thirty or forty kinds of seeds, watered them every day and cleaned the beds. As the plants began to sprout, we watched their growth with fascinated interest. When the flowers started to bloom, the compound became a place of beauty and joy.

India Wins Freedom - pg. 89

Apart from Jawaharlal, who often agreed with me, the other members were generally content to follow Gandhiji's lead. Sardar Patel, Dr. Rajendra Prasad and Acharya Kirpilani had no clear idea about the war. They rarely tried to judge things on their own, and in any case they were accustomed to subordinate their judgment to Gandhiji. As such, discussion with them was almost useless. After all our discussions, the only thing they could day was that we must have faith in Gandhiji. They held that if we trusted him he would find some way out. They cited the example of the Salt Satyagraha Movement in 1930.

India Wins Freedom - pg. 85

The Government had also decided that, in case of a Japanese attack, something like the scorched earth policy must be followed. They had also prepared measures for the blowing up of important bridges and the destruction of factories and industrial installations in order to deny them to the Japanese. Plans for the destruction of the Iron and Steel Factory at Jamshedpur [which was owned by the Tata Company] had somehow become known and there was great anxiety and unrest in the whole area.

ابن الوقت - صفحہ نمبر144  

کوئ ساڑھے پانچ بجتے بجتے کچہری سے سوار ہوا تو سیدھا میرٹھ کی سڑک کو ہو لیا۔ آفتاب تھا پس پشت اور ٹھنڈی ٹھنڈی پورا ہوا سامنے سے آرہی تھی۔ شاہ درے سے بھی کوئ کوس ڈیڑھ کوس آگے نکل گیا تھا کہ آفتاب نیچے لٹک آیا۔ چاندنی رات کے خیال سے دل تو ابھی لوٹنے کو نہیں چاہتا تھا مگر جمنا پر کشتیوں کا پل تھا؛ یہ تصوّر ہوا ایسا نہ ہو تاریکی میں گھوڑے کا پاوں کہیں کسی گھڑے میں جا رہے۔

Saturday, October 9, 2010

India Wins Freedom - pg. 79

Jawaharlal's nature is such that, when there is some tension in his mind, he talks even in his sleep. The day's preoccupations come to him as dreams. When I came out, Shrimati Rameshwari Nehru told me that for the last two nights Jawaharlal had been talking in his sleep. He was carrying on a debate and was sometimes muttering and sometimes speaking loudly. She had heard Cripps's name, sometimes references to Gandhiji and sometimes my name. This was added proof of how great was the strain under which his mind was working.

India Wins Freedom - pg. 77

I may also mention that Jawaharlal has always been more moved by international considerations than most Indians. He has looked at all questions from an international rather than a national point of view. I also shared his concern for the international issues, but to me the question of India's independence was paramount. I preferred the democracies to the fascist powers but I could not forget that, unless the democratic principle was applied to India's case, all professions of democracy sounded hollow and insincere. I also remembered the course of events since the First World War. Britain had then declared that she was fighting German imperialism to protect the rights of the smaller nations. When the United States entered the War, President Wilson formulated his Fourteen Points and pleaded for the self-determination of all nations. Nevertheless the rights of India were not respected. Nor were the Fourteen Points ever applied to India's case. I, therefore, felt that all talk about the democratic camp was meaningless unless India's case was seriously considered. I made all these points in an interview I gave to the News Chronicle about a week later in Calcutta.

India Wins Freedom - pg. 74

"... It is manifest that the present Government of India as well as its provincial agencies, are lacking in competence, and are incapable of shouldering the burden of India's defence. It is only the people of India, through their popular representatives, who may shoulder this burden worthily. But that can only be done by present freedom, and full responsibility upon them.
The Committee, therefore, are unable to accept the proposals put forward on behalf of the British War Cabinet."
-- response to Cripps in a Congress Working Committee Resolution

India Wins Freedom - pg. 55

From India, Sir Stafford Cripps went as a nonofficial visitor to Russia. Soon after, he was appointed the British Ambassador to Russia. Soon after, he was appointed the British Ambassador to Russia. It is sometimes held that he was responsible for bringing Soviet Russia nearer to the Allies. When finally Germany attacked Russia, a great deal of the credit for this break between Hitler and Stalin went to him. This gave him a great reputation and increased his standing in British public life. I have my doubts if he really had any effective influence on Soviet policy, but, in any case, his reputation soared high. When he returned to the U.K., many people even expected that he might replace Mr. Churchill as the head of the Government.

Friday, October 8, 2010

ابن الوقت - صفحہ نمبر123

ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ جو شخص دین کی باتوں میں عقل کو بہت دخل دیا کرتا ہے، شروع کرتا ہے جزئیات سے، فروغ سے، متشابہات سے اور آخر کو جا پہنچتا ہے کلیات میں، اصول میں، محکمات میں جیسا کہ ابن الوقت کو پیش آیا۔

Psalm 137

By the rivers of Babylon,
There we sat down, yea, we wept
When we remembered Zion.
We hung our harps
Upon the willows in the midst of it.
For there those who carried us away captive asked of us a song,
And those who plundered us
requested mirth,
Saying, “Sing us one of the songs of Zion!”

How shall we sing the LORD’s song
In a foreign land?
If I forget you, O Jerusalem,
Let my right hand forget
its skill!
If I do not remember you,
Let my tongue cling to the roof of my mouth—
If I do not exalt Jerusalem
Above my chief joy.

Remember, O LORD, against the sons of Edom
The day of Jerusalem,
Who said, “Raze
it, raze it,
To its very foundation!”

O daughter of Babylon, who are to be destroyed,
Happy the one who repays you as you have served us!
Happy the one who takes and dashes
Your little ones against the rock!

ابن الوقت - صفحہ نمبر117

انگریزی تمدّن اختیار کرنا اور شراب سے پرہیزرکھناایساہےکہ کوئ شخص کوئلوں کی دکان میں رہے اور منہ کالا نہ کرے

ابن الوقت - صفحہ نمبر117

غرض نمازپرتوانگریزیسوسائٹی کا اثر یہ دیکھا کہ پہلے وقت سے بے وقت ہوئ، پھر نوافل، پھر سنن جا کر نرے فرض رہے، ہو بھی پانچوں وقت پہلی رکعت میںسورہ عصر تو دوسری میں سورہ کوثر ، پھر جمع بین العصرین والمغربین شروع ہوا، پھر قضائےفائتہ پھر بالکل چٹ۔

Never Let Me Go - Opening

CHAPTER ONE
My name is Kathy H. I'm thirty years-one years old, and I've been a carer now for over eleven years. That sounds long enough, I know, but actually they want me to go on for another eight months, until the end of this year. That'll make it almost exactly twelve years.


TO LORNA AND NAOMI

All rights reserved. Published in the United States by Vintage Books, a division of Random House, Inc., New York. Originally published in hardcover in the United States by Alfred A. Knopf, a division of Random House, Inc., New York, and simultaneously in Great Britail by Faber and Faber, Ltd., London, in 2005

This book is a work of fiction. Names, characters, business organizations, places, events, and incidents either are the product of the author's imagination or are used fictitiously. The author's use of names of actual persons (living or dead), places, and characters is incidental to the purposes of the plot, and is not intended to change the entirely fictional character of the work or to disparage any company or its products or services. The book has not been prepared, approved, or licensed by any persons or characters names in the text, their successors, or related corporate entities.
Vintage is a registered trademark and Vintage International and colophon are trademarks of Random House, Inc.


Book design by Iris Weinstein

Printed in the United States of America

Thursday, October 7, 2010

ابن الو قت - صفحہ نمبر 112

ابن ال وقت تو ان کے نزدیک نرا کافر بھی نہیں بلکہ مجموعہ کفّار تھا، حنفی، شافعی، سنّی، شیعہ، وہّابی، بدعتی، مسلمانوں کے جتنےفرقے ہندوستان میں ہیں سب کے علماء نے قرآن کی آیتوں سے، حدیژوں سے سند پکڑ پکڑ کر بالاجماع ابن الوقت کے کفر کے فتوے لکھ دئے ۔ ایک فتویٰ تو خود ہماری نظر سے بھی گزرا، فتویٰ کاہے کو تھا، اچھا خاصہ اقلیدس، کا پہلا مقالعہ معلوم ہوتا تھا، کیوں کہ مربع، مستطیل،بیضوی سب شکلوں کی تو مہریں اس میں تہیںاور پھر بعضے کفِ دست کے برابر چوڑے چکے طغرے، کیسے کیسے پیچیدہ کہ ہمایوں کی بھول بھلیاں کی کیا اصل ہے۔

Wednesday, October 6, 2010

108ابن الوقت - سفحہ نمبر

ابن الوقت: دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے تنزّل کا جو کچھ سبب ہو، ہندستان کے مسلمانوں پر تو ہندووں کے اختلاط نے بہت ہی برا اثر کیا ہے ۔ ہندووں میں رہ کر یہ بھی انھی کی طرح شکّی، ڈرپوک، پست حوصلہ، گھر گھسنے، آرام طلب ہو گئے ۔ مسلمانوں کا یہ عیب کہ انگریزوں سے پرہیز کرتے ہیں اءر اس وجہ سے انگریزی عملداری کے بہت سے فائدوں سے محروم ہیں اور یوما فیوما مفلسی اور بے وقعت ہو تے جاتے ہیں اور گورنمنٹ کو اپنی طرف سے بد ظن رکھتے ہیں یعنی مسلمانوں کی اتنی ہندویت تو انشااللہ میں دفع کر دوں گا۔

ابن الوقت - صفحہ نمبر101

ہمارے دیکھتے دیکھتے بہت سے عمدہ اور یافت کے پیشے معدوم ہو گئے اور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اب کہاں ہیں وہ ڈھاکے کے ململ، بنارس کے مشروع، اورنگ آباد کے کمخواب، بیدر کے برتن، کالپی کے کاغز، کشمیر کی شالیں، لاہور کے ریشمی ڈور، ۔

ابن الوقت - صفحہ نمبر100

ابن ال وقت: پس ہر ہر گاوں اگر اگلی سی زمینداری ہو، اپنی اپنی بساط کے مطابق ایک قوّت ہے اور ان کا ایک مجموعہ ایک بلا کا زور ہے ؛ ناممکن المقاومت ہے۔ یہ زور اگر گورنمنٹ کا مساعد ہو سکے تو میں نہیں خیال کر سکتا کہ گورنمنٹ کو روپے کی، سپاہ کی، آلاتِ حرب کی، اعوان و انصار کی، کسی قسم کی دوسری قوّت درکار ہو۔ لیکن گورنمنٹ نے بجائے اس کے کہ اس قدرتی، خداداد زور سے فائدہ اٹھا ئے، اس کو ضائع اور معدوم کردینا مناسب آسان سمجھا اور ضائع اور معدوم کر دیا۔ اس بارے میں گورنمنٹ کی عقل، اس جوگی کی عقل سے کچھ زیادہ تعریف کی مستحق نہیں جو اپنے ہاتھ کو خشک کر ڈالتا ہے، اس خیال سے کہ شاید وہ اس ہاتھ سے کسی گناہ کا مرتکب ہو۔

ابن الوقت - صفحہ نمبر 92

ابن الوقت: میں اس بات کو پکارے کہتا ہوں کہ ہندوستانی رئیس ہندہ ہو یا مسلمان آرام طلب ہو گا، کاہل ہو گا، احمق ہو گا، عیاش ہو گا، غافل ہو گا، مسرف ہو گا، خرچ آمد سے فاضل ہو گا، غرض اس میں سب طرح کے جنون ہوں گے مگر نہیں ہو گا تو ایک جنونِ بغاوت۔

ابن الوقت - صفحہ نمبر87

نوبل صاحب: ۔۔۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندووں کی صحبت نے بڑے نقصان پہنچائے ہیں اور من جملہ ان کے ایک یہ بھی ہے کہ یہاں کے مسلمان انہی کی طرح شکّی اور وہمی ہو گئے ہیں

ابن الوقت - صفحہ نمبر 73

نوبل صاحب: ۔۔۔اس کے علاوہ انگریزی زبان کے رواج دینے ایک فرض تو علومِ جدیدہ کا پھیلانا ہے اور دوسری غرض اور بھی ہے یعنی عموما انگریزی خیالات کا پھیلانا۔ اکیلے علومِجدعدہ سے کام چلنے والا نہیں جب تک خیالات میں آزادی، ارادے میں استقلال، حوصلے میں وسعت، ہمت میں علو، دل میں فیاضی اور ہمدردی، بات میں سچائ، معاملات میں راست بازی یعنی انسان پورا پورا جنٹلمین نہ ہواور وہ بدون انگریزی جاننے کے ہو نہیں سکتا۔

ابن الوقت - صفحہ نمبر70

نوبل صاحب: ۔۔۔۔ اتنے میں سامنے میں سے ایک گورا نظر پڑا، کہ اکیلا پیپ پیتا ہوا سیدھا چلا آرہا ہے اور لوگ ہیں کہ آپ سے آپ کائ کی طرح پھٹتے چلے جاتے ہیں ۔ میں نے اسی وقت خیال کیا تھا کہ یہ قومی تعزّز کا اثر ہے۔ شخصی تعزّز پر اگر قومی تعزّز مستزاد ہو تو نور اعلیٰ نور، ورنہ بدون قومی تعزّز اصلی عزت نہیں بلکہ عزت کا ملمع ہے۔

67 ابن الوقت - صفحہ نمبر

نوبل صاحب: "۔۔۔شاید یہ غدر اسی وجہ سے ہوا تھا کہ دونوں کو اپنی اپنی غلطیوں پر تنبّہ ہو۔ ابھی تو غدر کی یاد داشت تازہ ہے، چند سال بعد غدر اور اس کی خوفناک حکایتیں سب قصّے اور افسانے معلوم ہونے لگیں گے۔ اےک بار اچھی طرح پھٹ کر اس زخم کا انگور بندھے گا اور جس طرح آپ آج کے بعد کل اور کل کے بعد پرسوں کو دیکھ رہے ہیں، مجھ کو وہ دن نظر آ رہا ہے اور خدا نے چاہا تو میں اس کو اپنی زندگی میں ان آنکھوں سے دیکھوں گا۔ ہندووں کا کفر تو شاید مدّتوں میں جا کر ٹوٹے گا کیوں کہ ان بے چاروں کے پاس رسم و رواج کے سوائے مزہب کوئ چیز نہیں مگر ہاں مسلمانوں کو اپنے مزہب پر بڑا ناز ہے اور جہاں تک مجھ کو معلوم ہے ان کے مزہبی اصول اکثر اچھے بلکہ بہت اچھے ہیں ، ان میں اور انگریزوں میں ارتباط اور اختلاط کا ہو جانا چنداں دشوار معلوم نہیں ہوتا۔"

ابن الوقت - صفحہ نمبر 63

اور چپراسی سے فرما رہے ہیں: "اچا آنے بولو-' یعنی اچھا، سر رشتہ دار سے کہو، چلے آئیں۔ سبحان اللہ سات برس اسسٹنٹ رہے، نو برس کے قریب جنٹ اور اس سولہ برس میں صرف ایک بار ڈیڑھ برس کے لیئے فرلو پر ولایت گئے تھے بارہ برس دلّی میں رہے اور بھاڑ جحونکا۔ چودہ برس ہیں حضرت نے اردو میں کیا کمال حاصل کیا ہے۔"

Tuesday, October 5, 2010

ابن الو قت - صفحہ نمبر 53

نوبل صاحب: “ہندوستان کو جس کمزوری نے تباہ کیا، اصل میں وہ یہی کمزوری ہے۔ خدا نے جیسی ان کی طبیعتیں بودی اور محکوم بنائ تھیں، ویسے ہی یہ لوگ صدا سے بودے اور محکوم رہتے چلے آءے اور جب تک یہ کمزوری ان کی طبیعتوں میں ہے، آگے کو بھی ضرور بودے اور محکوم رہیں گے"۔

ابن الوقت کو پہلے سی انگریزوں کی طرف رجحان تھا' اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ، نوبل صاحب کا اشارہ پاتے ہی مقابل کی ایک کرسی پر ڈٹ گیااور یہ عیساءیت کا نہیںبلکہ اس کی انگریزیت کا گویا اصطباغ تھا۔

ابن الو قت - صفحہ نمبر 45

ابن الوقت کے مکان پر بھی سارا دن اور پہر رات گءَے تک یہی تانتا لگا رہتا تھاکہ ایک گیا ایک آیا مگر پہرہ اور اشتہار دیکھا اور کان دبا کر چلتے بنے۔

ابن الو قت - صفحہ نمبر 40

اگلے دن جو ابن الوقت قلعہ گیا تو دیکھا کہ جہاں پناہ بھی بھاگنے کی تیا ری کر رہے ہیں۔ سمجھا کہ اب صبح شام انگریز داخل ہو نے والے ہیں۔ وہاں کے کام کاج سے فراغت پا کر گھر کو واپس آ رہا تھا کہ بادشاہ کے خاص الخاص خدمت گار یاقوت نے پیچھے سے آواز دی اور برابر آ کر کہنے لگا "بھلا ہؤا کہ میں نے آپ کو جاتے دیکھ لیا ورنہ آپ کے گھر میں جانا پڑتا۔ جو انگریز آپ کے گھر میں چھپا ہؤا ہے یہ چٹھی اس کے نام کی ہے، اس کو دے دیجیئ گا"۔

ابن الو قت - صفحہ نمبر 36

نوبل صاحب: آپ صرف دیر کی وجہ سے ایسا قیاس کرتے ہیں یا؟

ابن الو قت: (ہنس کر) نہیں ، ایک کوّا چھجے پر بیٹھا کاؤں کاؤں کر رہا تھا، میں نے اپنے ملک کی رسم کے مطابق شگون لیا اور کوّے سے کہا جا نثار آتا ہو تو اڑ جا۔ یہ کہنا تھا کہ کوّا اڑ گیا۔

ابن الو قت - صفحہ نمبر 28

ادھر آفتاب کا جنازہ کفن خون آلود شفق پہنا کر تیار کر چکے تھے کہ قبر مغرب میں اتار دیں، ادھر بے کفن کی لا شیں دیواروں کے ساٰءے کا ماتمی کفن پہن چکی تھیں۔

Prince Frederick Of Homburg - Opening

Act I
SCENE 1
Fehrbellin. Garden in traditional French style. In the background a castle, from which a ramp leads down into the garden.

It is night.

Bareheaded wand with an open shirt, The Prince of Homburg, half-awake, half-asleep, sits under an oak tree, weaving himself a wreath. The Elector, his wife, Princess Natalie, the Count of Hohenzollern, Captain Golz, and others step secretly forth from the castle and look down from the balustrade of the ramp upon Homburg.


HOHENZOLLERN: The Prince of Homburg, our courageous cousin,
Who has led our cavalry the past three days
And given the elusive Swedes an eager chase,
Appeared again today, quite out of breath,
At our commanding post in Fehrbellin:
Were your orders to him then that he remain
For food and rest a mere three hours, then quick
Approach the Hackel Mountains once again,
To face our enemy Wrangel, who has tried
To entrench himself along the River Rhyn?
ELECTOR: 'Tis so!

Book Cycle for October

  1. Twilight in Delhi
  2. Ibn ul Waqt
  3. Aab-e-Hayat
  4. Hayat-e-Javed
  5. Early Xian Writers
  6. Kleist
  7. Ingeborg Bachmann (2010, rest of,)
  8. Muslim Women in India
  9. India Wins Freedom
  10. Plato the two books: Forum, Republic,
  11. Genesis : The Bible
  12. Histrionics: Three Plays

Sunday, October 3, 2010

ابن الو قت - آغاز

ابن الو قت کی تقریب

آج کل کا زمانہ ہوتا تو کانوں کان کسی کو خبر بہی نہ ہوتی۔ابن الوقت کی تشہیر کی بڑی وجہ یہ ہوی کہ اس نے ایسے وقت میںانگریزی وضع اختیار کی جب کہ انگریزی پڑھنا اور انگریزی چیزوں کا استعمال ارتداد سمجھا جا تا تھا. یہ تو ہماری آنکھوں دیکھی باتیں ہیں کہ ریل میںبہ ضرورت کوی بھلا مانس چرٹ پیتا تو جان پہچان والوں سےچراتا چھپاتا۔ ایک دوست کہیں باہر بند و بست میں نوکر تھے اور جانچ پڑتال کے لیے ان کو کھیت کھیت پھرنا پڑتا تھا، ہندستانی جوتی اس رپڑ میں کیا ٹھرتی ، نا چار انگریزی بوٹ پہننے لگے تھے مگر دو چار دن کے لیے دہلی آتے تو گھر میںکبھی کے پڑے ہوے پھٹے پرانے لیترے ڈھونڈ کر پا ؤں میں ہلگا لیتے، تب کہیں گھر سے باہر نکلتے۔


Labels