(It's better to create than destroy what's unnecessary)

Saturday, October 23, 2010

حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر 58

سر سید کا مزکورہ بالا جلسوں میں شریک ہونا آخر کار رنگ لائے بغیر نہ رہا ۔ اگرچہ اس وقت تک دلی کے مسلمانوں میں قدیم سوسائٹی کی بہت سی خوبیاں باقی تھیں لیکن چونکہ ان کے اقبال کا خاتمہ ہو چکا تھا اس لئیے ان کی سوسائٹی میں ان خرابیوں کی آہستہ آہستہ بنیاد پڑتی جاتی تھی جن کو تنزل اور ادبار کا پیش خیمہ سمجھنا چاہئیے۔ طبیعتیں عموماْ عیش و نشاط اور راگ رنگ کی طرف مائل ہو جاتی تھیں ۔ بے فکر امیر زادے عیاشی اور لہو و لعب کی مثالیں قائم کرتے جاتے تھے اور خربوزوں کو دیکھ کر خربوزے رنگ پکڑتے جاتے تھے ۔اگرچہ سر سید سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں متاہل ہو گئے تھے پھر بھی وہ اس متعدی مرض کے اثر سے اپنے تئیں نہ بچا سکے ۔ لیکن جیسا کہ معتبر زریعوں سے معلوم ہوا ہے ، باوجود غایت دلبستگی کے جو جنون سے کسی طرح کم نہ تھے، سر سید نے جس حیرت انگیز طریقہ سے اپنے تئیں اس دلدل سے نکالا وہ درحقیقت ان کی زندگی کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس کو ان کی اخلاقی طاقت کا سب سے پہلا کرشمہ سمجھنا چاہئیے۔ گویا یہ شعر ان کے حسبِ حال تھا:

ھزار دوام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں

جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے

No comments:

Labels