کوئ ساڑھے پانچ بجتے بجتے کچہری سے سوار ہوا تو سیدھا میرٹھ کی سڑک کو ہو لیا۔ آفتاب تھا پس پشت اور ٹھنڈی ٹھنڈی پورا ہوا سامنے سے آرہی تھی۔ شاہ درے سے بھی کوئ کوس ڈیڑھ کوس آگے نکل گیا تھا کہ آفتاب نیچے لٹک آیا۔ چاندنی رات کے خیال سے دل تو ابھی لوٹنے کو نہیں چاہتا تھا مگر جمنا پر کشتیوں کا پل تھا؛ یہ تصوّر ہوا ایسا نہ ہو تاریکی میں گھوڑے کا پاوں کہیں کسی گھڑے میں جا رہے۔
(It's better to create than destroy what's unnecessary)
Tuesday, October 12, 2010
ابن الوقت - صفحہ نمبر144
Labels: Deputy Nazeer Ahmed, landscapes
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment