نوبل صاحب: ۔۔۔اس کے علاوہ انگریزی زبان کے رواج دینے ایک فرض تو علومِ جدیدہ کا پھیلانا ہے اور دوسری غرض اور بھی ہے یعنی عموما انگریزی خیالات کا پھیلانا۔ اکیلے علومِجدعدہ سے کام چلنے والا نہیں جب تک خیالات میں آزادی، ارادے میں استقلال، حوصلے میں وسعت، ہمت میں علو، دل میں فیاضی اور ہمدردی، بات میں سچائ، معاملات میں راست بازی یعنی انسان پورا پورا جنٹلمین نہ ہواور وہ بدون انگریزی جاننے کے ہو نہیں سکتا۔
(It's better to create than destroy what's unnecessary)
Wednesday, October 6, 2010
ابن الوقت - صفحہ نمبر 73
Labels: Deputy Nazeer Ahmed
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment