(It's better to create than destroy what's unnecessary)

Saturday, October 23, 2010

حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر 93

سر رشتہ تعلیم جو چند سال سے جاری ہے وہ تربیت کے لئیے ناکافی ہی نہیں بلکہ خراب کرنے والا تربیتِ اہلِ ہند کا ہے اردو زبان جس کے وسیلہ سے اکثر جگہ تعلیم جاری ہے اس کی حالت ایسی نہیں ہے جس سے تعلیم ہونا ممکن ہو۔ کینکہ جس زبان میں ہم کسی قوم کی تعلیم کا ارادہ رکھتے ہیں اس زبان کی نسبت ہم کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس میں علمی کتابیں کافی موجود ہیں بھی یا نہیں؟ کینکہ اگر یہ نہ ہو تو تعلیم ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ زبان فی نفسہ اس قابل ہی یا نہیں کہ اس میں علمی کتابیں تصنیف ہو سکیں ؟ کینکہ پہلی بات کا تو علاج ہو سکتا ہے مگر دوسری بات لا علاج ہے ، تیسرے یہ کہ آیا وہ ایسی زبان ہے یا نہیں کہ اس میں علوم پڑھنے سے جدتِ طبع، حدتِ ذہن، سلامتِ فکر، ملکئہ عالی، قوتِ ناطقہ، پختگئیِ تقریر اور ترتیبِ دلائل کا سلیقہ پیدا ہو سکے ؟ ان تینوں باتوں میں سے اردو زبان میں کوئ بات نہیں ۔ پس گورنمنٹ پر واجب ہے کہ اس طریقہء تعلیم کو جو در حقیقت تربیت انسان کو خراب کرنے والا اور خود بخود لوگوں کے دلوں میں بد گمانی پیدا کرنے والا ہے۔ بل کل بدل دے اور اس زبان میں تربیت جاری کرے جس سے تربیت کا جو اصلی نتیجہ ہے وہ حاصل ہو"۔

میری صاف رائے ہے کہ اگر گورنمنٹ اپنی شرکت دیسی زبان میںتعلیم دینے سے بالکل اٹھا دےاور صرف انگریزی مدرسہ اور اسکول جاری رکھے تو بلا شبہ یہ بد گمانی جو رعایا کو گورنمنٹ کی طرف سے ہے جاتی رہے ۔ صاف صاف لوگ جان لیں کہ سرکار انگریزی زبان کو وسیلہ سے تربیت کرتی ہے اور انگریزی زبان بلا شبہ ایسی ہے کہ انسان کی ہر قسم کی علمی ترقی اس میں ہو سکتی ہے"۔

سر سید احمد خان

No comments:

Labels