نوبل صاحب: ۔۔۔۔ اتنے میں سامنے میں سے ایک گورا نظر پڑا، کہ اکیلا پیپ پیتا ہوا سیدھا چلا آرہا ہے اور لوگ ہیں کہ آپ سے آپ کائ کی طرح پھٹتے چلے جاتے ہیں ۔ میں نے اسی وقت خیال کیا تھا کہ یہ قومی تعزّز کا اثر ہے۔ شخصی تعزّز پر اگر قومی تعزّز مستزاد ہو تو نور اعلیٰ نور، ورنہ بدون قومی تعزّز اصلی عزت نہیں بلکہ عزت کا ملمع ہے۔
(It's better to create than destroy what's unnecessary)
Wednesday, October 6, 2010
ابن الوقت - صفحہ نمبر70
Labels: Deputy Nazeer Ahmed
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment