(It's better to create than destroy what's unnecessary)

Friday, October 15, 2010

ابن الو قت - صفحہ نمبر 183

حجۃالاسلام: خیر ،آپ پوچھتے ہیں عرض کرتا ہوں کہ میرے نزدیک انگریزی تعلیم کا یہ نتیجہ تو ایک نہ ایک دن ضرور ہونا ہے کہ گورنمنٹ کا گنگا جمنی رنگ کہ کسی قدر انگریزی ہے اور کسی قدر ایشیائی اور جس کے لئے یوریشین کا لفظ نہایت مناسب ہے اور ہم اپنی زبان میں ایسا لفظ بنانا چاہیں تو مغلئی اور انگریزی کو ملا کر 'مغریزی' کہہ سکتے ہیں، غرض گورنمنٹ کا یہ دوغلا پن تو باقی رہتا نظر نہیں آتا۔ ہندوستان اور ولایت میں جو پرلے درجے کی مغایرت اور اجنبیت تھی ، یوماْ فیوماْ کم ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کے چند در چند اسباب ہیں ؛ انگریزی تعلیم، انگریزی اور دیسی اخباروں کی کثرت ، ڈاک، ریل، تار، سفر ولایت کی سہولت، ہندوستانیوں اور انگریزوں دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے جاننے پہچاننے کا شوق۔ غرض جس قدر ہندوستانیوں کی آنکھیں کھلتی چلی جاتی ہیں اسی قدر ان کے حوصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ انجامِ کار ہندوستانی ضرور خواہش کریں گے کہ ہوم گورنمنٹ اور انڈین گورنمنٹ دونوں کا ایک رنگ ہو اور ولایت میں جو حقوق رعایائے سلطانی ہونے کی حیثیت سے آپ لوگوں کے تسلیم کئیے گئے ہیں اور جو اختیار آپ لوگوں کو دیئے گئے ہیں ، وہی حقوق اس ملک میں ہندوستانیوں کے تسلیم کئیے جائیں اور وہی اختیار ان کو ملیں۔

No comments:

Labels