(It's better to create than destroy what's unnecessary)

Saturday, October 23, 2010

حیاتِ جاوید - صفحہ نمبر 81

انھی دنوں میں ایک شخص منیر خاں نامی مع جمیعت چار سو آدمی کے نگینے سے بجنور میں آیااور سر سید اور میر تراب علی، دپتی رحمت خاں کے قتل کے درپے ہوا ان کو بہ جبر و تحکم طلب کیا اور کہلا بھیجا کہ اگر حاضر نہ ہو گے تو بہتر نہ ہوگا۔ سر سید اور میر تراب ولی اس کے پاس گئے۔ منیر خاں نے سر سید سے مسئلہ جہاد کے بارے میں گفتگو کی۔ انھوں نے نہایت سنجیدگی سے اس کو سمجھا یا کہ شرع کے بموجب ہرگز جہاد نہیں ہے، اس نے ان کو تو رخصت کیا اور مولوی علیم اللہ رئیس کے پاس خود جا کر یہی مسئلہ پوچھا ۔ انھوں نے بڑی دلیری سے اس کے ساتھ گفتگو کی اور بہت سی دلیلوں سے اس کو قائل کیا کہ مزہب کی رو سے جہاد نہیں ہے ۔ اس روز مولوی علیم اللہ قتل ہوتے ہوتے بچے ۔ دوسرے دن منیر خاں وہاں سے دلّی چلا گیا اور وہاں جا کر لڑائی میں مارا گیا۔

No comments:

Labels